واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

حضرت خواجہ حسن بصری

رضی اللہ تعالیٰ عنہ

  آپ کا اسم گرامی حضرت حسن ۔ کنیت ابو محمد ، ابو سعید اور ابی البصر ہے۔آپ کا لقب خواجہ خواجگان ہے ۔ آپ حضرت عمر فاروق  رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے زمانۂ خلافت میں ۲۱ ہجری کو پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد موسی راعی زید بن ثابت انصاری   رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ والدہ ماجدہ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی لونڈی تھیں۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

  جس دن خواجہ حسن بصری   رضی اللہ تعالیٰ عنہ     پیدا ہوئے  تو آپ کی والدہ  آپ کو جھولی میں لیے  امیر المومنین حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔بچے کو دیکھ کر  امیر المومنین حضرت عمر   رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے  فرمایا بہت خوبصورت بچہ ہے  اس کا نام حسن رکھو۔حضرت اُم سلمہ   رضی اللہ تعالٰی عنہ  ہمیشہ آپ کے حق میں دعا کرتیں اور فرماتیں ۔ الٰہی اس بچے کو مسلمانوں کا رہنما بنا نا ۔چنانچہ آپ کی دعا سے ایسا ہی ہوا۔ خواجہ حسن بصری  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے ایک سو تیس صحابہ  کرام کی زیارت کی تھی۔جن میں ستر وہ صحابی بھی تھے جو میدان بدر میں جہاد کرتے رہے۔

خواجہ حسن بصری  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   ابھی بچے ہی تھے کہ  اُم المومنین  حضرت سلمٰہ   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے گھر میں اس کوزے سے پانی پی لیا  جو حضرت محمد ﷺ کے لیے مخصوص تھا۔جب حضور ﷺ گھر تشریف لائے تو پوچھا کہ ہمارے کوزے سے کس نے پانی پیا ہے۔ اُم المومنین حضرت سلمہٰ   رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے عرض کیا یا رسول اللہ اس بچے حسن بصری نے پانی پیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اس نے جتنا پانی پیا ہے اسی قدر میرا علم اس کے وجود میں سرایت کرگیا ہے۔  حضورﷺ حضرت حسن بصری  رضی اللہ تعالٰی عنہ  کو نہایت محبت کے ساتھ اپنی گود میں اٹھاکر پیا رکرتے تھے۔

ابتدا میں آپ جواہرات بیچا کرتے تھے۔ اس لیے حسن لولوئی کے نام سے مشہور تھے۔ اس پیشے سے آپ نے بہت روپیہ کمایا۔ لیکن جب عشق الہی کا غلبہ ہوا تو سارا روپیہ راہ خدا میں لٹا دیا اور گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر عبادت الہٰی میں مشغول ہوگئے۔آپ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دست بیعت ہوئے۔ سسلسلہ قادریہ' سلسلہ چشتیہ اور سلسلہ سہروردیہ آپ کے وسیلہ سے جناب علی کرم اللہ وجہ سے جاملتا ہے۔

تصوف میں آپ کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ سنت نبوی کے سخت پابند تھے۔ خوف الہٰی سے ہر وقت روتے رہتے تھے۔ کثرت گریہ کے باعث آنکھوں میں گڑھے پڑ گئے تھے۔ مزاج میں انکسار بہت تھا۔ آپ کے نزدیک زہد کی بنیاد حزن و الم ہے۔تصوف میں خوف و الم کا مسلک آپ ہی سے منسوب ہے۔ تمام اکابر صوفیا آپ کو شیخ الشیوخ مانتے ہیں۔ آخر عمر میں بصرہ میں سکونت اختیار کر لی ۔

امام حسن بصری  رضی اللہ تعالٰی عنہ   کا قول ہے کہ تدبیر آدھا کسب ہے (التدبیر نصف الکسب) یہ بڑی حکیمانہ بات ہے۔اس تد بیر کا تعلق ہرقسم کے کسب سے ہے۔ معاش حاصل کرنے کا معاملہ ہو یا اور کوئی معاملہ، ہرچیز میں تدبیر فیصلہ کن حدتک اہمیت رکھتی ہے۔ خوش تدبیری سے بگڑا ہوا معاملہ بن جاتاہے، اور بد تدبیری سے بنا ہوا معاملہ بگڑجاتاہے۔

   ایک دفعہ خواجہ حسن بصری  رضی اللہ تعالٰی عنہ  ایک قافلےکےساتھ حج پرجارہےتھے۔ یہ قافلہ ایسے بیابان سے گزرا جہاں دوردورتک پانی کانام ونشان نہ تھا۔ آخرکار ایک کنواں مل گیا لیکن وہاں نہ رسی تھی نہ ڈول تھا۔ بڑی پریشانی ہوئی سوچنے لگےکیاکیا جائے۔ خواجہ حسن بصری  رضی اللہ تعالٰی عنہ  نےکہا میں نماز پڑھتا ہوں تم پانی پی لینا۔ جب آپ  رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے نماز شروع کی تو پانی کو جوش آگیا اور پانی کنویں کےکنارے تک آگیا چنانچہ ساری جماعت نے خوب سیر ہوکر پانی پیا اور وضو کیا۔ ایک آدمی نے لالچ کرتے ہوئے پانی سے ایک مشکیزہ بھر لیا جس کی وجہ سے پانی فوراً کنویں کی تہہ میں چلا گیا۔ آپ  رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے نماز سے فارغ ہوکرفرمایا کہ تم نے خدا پر توکل نہ کیا اس لئے پانی نیچے چلاگیا۔ اگر یہ دوست مشکیزہ نہ بھرتاتو کنویں کا پانی کبھی نیچے نہ جاتا۔

مراۃ الاسرار میں ہے کہ ایک خارجی ہمیشہ آپ  رضی اللہ تعالٰی عنہ  کو اور آپ  رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی مجلس والوں کو ایذا دیتا تھا۔ ایک دن لوگوں نے کہا کہ اے خواجہ  رضی اللہ تعالٰی عنہ  آپ حاکم سے شکایت کریں تاکہ ہم اس کے شر سے نجات پائیں لیکن آپ  رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے کچھ نہ کہا۔ آپ  رضی اللہ تعالٰی عنہ  اصحاب کے ساتھ بیٹھے تھے کہ وہ خارجی آتا ہوا نظر آیا۔ آپ   رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے فرمایا یا الٰہی تو جانتا ہے کہ یہ مجھے تکلیف دیتا ہے پس میں تجھے کافی سمجھتا ہوں۔ آپ  رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے الفاظ یہ ہیں" الٰھی علمت علٰی اعدائی فا کفینا بہ بمشیتک" وہ خارجی منہ کےبل گرا اور اسی وقت مر گیا۔

حضرت خواجہ حسن بصری  رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے ایک دوست سحری کے وقت خواجہ صاحب  رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی مسجد میں گئےتو دیکھا کہ مسجد کا دروازہ اندر سے بند ہے۔وہ کہتے ہیں کہ میں نے دروازے کےسوراخ سے اندر دیکھا تو ساری مسجد لوگوں سے بھری ہوئی تھی اور حضرت دعا مانگ رہے تھے اور سب لوگ آمین کہہ رہےتھے۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا خواجہ حسن بصری  رضی اللہ تعالٰی عنہ  محراب سے اٹھ کر آئے اور دروازہ کھولا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ مسجد میں صرف خواجہ حسن بصری  رضی اللہ تعالٰی عنہ  موجود ہیں اور بقایا سب لوگ غائب ہیں۔ میں نے صورتحال دریافت کی تو حضرت خواجہ حسن بصری  رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے فرمایا کہ یہ تمام جن تھے جو دینی تعلیم کے لئے میرے پاس آتے ہیں۔ یاد رکھو یہ ایک راز ہے اور میری زندگی میں اسے کسی کو نہ بتانا۔

سیر الاکتاب،سفینتہ الاولیا اور تذکرۃ العاشقین کے مطابق آپ  رضی اللہ تعالٰی عنہ  چار محرم الحرام ۱۱۱ہجری کو اس دارفانی سے رخصت ہوئے جبکہ مخبرالواصلین کے مطابق آپ  رضی اللہ تعالٰی عنہ  پانچ رجب المرجب کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ آپ  رضی اللہ تعالٰی عنہ  کا مزار مبارک بصرہ میں ہے۔